یورپی تہذیب

 18+

فرانس میں رہائش کے تیسرے سال مجھے ایک بڑے اپارٹمنٹ میں رہنے کا موقع ملا جس میں ایک کمرہ میرے پاس تھا اور دوسرے کمرے میں ایک فرانسیسی لڑکا چند ماہ کے لیے آیا جس کی عمر اٹھارہ سال کے لگ بھگ تھی۔وہ کالج میں “لیسے” کے آخری سال کا سٹوڈنٹ تھا۔ لیسے ان کی ایف ایس سی طرز کی تین سالہ  تعلیم ہے جس کے بعد یونیورسٹی کی تعلیم ہوتی ہے۔ یہ عام طور پر پندرہ سے اٹھارہ سال کے سٹوڈنٹس ہوتے ہیں۔ 

ہمارا کچن کامن تھا۔  وہ ویجیٹیرین تھا، شراب بھی نہیں پیتا تھا اس لیے  مجھے بھی کوئی خاص مسئلہ نہیں تھا۔ اس سے کھانے پر گپ شپ ہو جاتی تھی ۔ یہ گپ شپ ہم فرانسیسی زبان میں ہی کرتے تھے تاکہ میں اچھے سے اس زبان کو بھی سیکھ سکوں۔ 

ہر ویک اینڈ پر اس کی کوئی نہ کوئی کلاس فیلو یا پھر کالج فیلو اس کے پاس  کمبائن سٹڈی کے نام سے رکنے کے لیے آتی تھی۔ایک لڑکی عام دنوں میں بھی کبھی کبھی آجاتی تھی لیکن زیادہ تر ویک اینڈ پر کوئی نہ کوئی نئی ہی ہوتی تھی۔ان کے امتحانات کے دنوں میں روز ہی کوئی نہ کوئی اس کے پاس ہوتی تھی۔ 

 ہمارے کمروں کی ایک دیوار سانجھی تھی۔  اکثر رات بارہ ایک بجے کے بعد مجھے کہنا پڑتا تھا کہ شور تھوڑا کم کر دیں، یا  دوسری دیوار کے ساتھ ہو جائیں یا پھر بیڈ کی بجائے قالین کو استعمال کر لیں کیونکہ ان کی خاص آوازوں سے میری نیند میں خلل آتا تھا۔ 

ایک دن گپ شپ لگاتے میں نے پوچھا کہ تقریباً ہر ہفتے نئی لڑکی ہوتی ہے، تو ان کو کوئی اعتراض نہیں ہوتا کہ آپ کے اتنی زیادہ لڑکیوں کے ساتھ تعلقات ہیں؟ ان میں سے آپ کی کوئی گرل فرینڈ نہیں ہے جو اعتراض کرے؟(وہاں گرل فرینڈ بیوی کی مانند ہے یعنی جس سے تعلق کو آپ اعلانیہ رکھیں اور آپ کا صرف اس سے ہو اور اس بھی صرف آپ سے)۔ 

اس نے بتایا کہ چونکہ اس کی عمر بھی ابھی اٹھارہ سال نہیں ہوئی ہے اس لیے وہ گرل فرینڈ نہیں رکھ سکتا۔ ایسے ہی ان لڑکیوں کی عمر بھی ابھی اٹھارہ سال نہیں ہوئی ہے۔ ابھی ہم ایک دوسرے کے ساتھ رہ کر دیکھتے ہیں کہ کیا ہم ایک دوسرے کے لیے موزوں ہیں یا نہیں۔ یعنی گرل فرینڈ بوائے فرینڈ بن سکتے یا نہیں۔  اگر ہمیں کوئی پسند آجائے یا کسی کو ہم پسند آجائیں تو پھر ہم تھوڑا زیادہ ملتے ہیں اور اس کے بعد ہی ایک دوسرے کے پارٹنر بنتے ہیں۔ 

میں نے اس سے پوچھا کہ اگر ایسا ہے تو یقینا ً یہ لڑکیاں دوسرے لڑکوں کے پاس بھی رات گزارنے جاتی ہونگی۔ تو اس میں آپ کو کوئی مسئلہ نہیں کہ کل کو جو بھی آپ کی گرل فرینڈ بنے، وہ پہلے ہی کئی لڑکوں کے ساتھ سو چکی ہو جیسے آپ کئی لڑکیوں کے ساتھ سوئے ہو۔ 

وہ تھوڑی دیر خاموش ہوا، تھوڑا سوچنے کے بعد کھسیانی سی ہنسی ہنسا اور پھر کہا کہ یہاں سب کو آزادی ہے پھر میں کیسے روک سکتا ہوں۔ اگر اتنے لڑکوں سے تعلقات کے بعد بھی کوئی مجھے چنتی ہے تو میں خوش ہونگا کہ میں ان سب سے اچھا ہوں۔ 

میں نے پوچھا کہ جب کوئی بھی لڑکا یا لڑکی اس طرح ایک سے زیادہ کے ساتھ جنسی تعلق قائم کر چکے ہوتے ہیں تو پھر شادی (یا جو بھی آپ نام دیں) کے بعد صرف ایک کے لیے خود کو کیسے روک سکتے ہیں؟

اس نے کہا کہ ہاں جب کسی پرانی جان پہچان والی سے اس طرح ملاقات ہو جائے کہ کچھ ہو سکتا ہو تو پھر کچھ نہ کچھ تو ہو ہی جاتا ہے۔ 

میں نے اس سے پوچھا کہ اٹھارہ سال سے کم پر تو جسمانی تعلقات یہاں منع ہیں اور اس پر سخت سزا بھی ہے پھر آپ لوگوں کو اس کا کوئی ڈر نہیں؟

اس نے جواب دیا کہ جب دونوں ہی اٹھارہ سے کم ہوں تو پھر سزا سے بچ جاتے۔ ہاں ایک کی عمر اٹھارہ سے زیادہ تو پھر اس کو سزا ہو سکتی۔اس لیے جس کی اٹھارہ سے زیادہ ہو وہ اٹھارہ سے چھوٹوں کے ساتھ تعلقات میں خطرے میں ہوتا ہے کیوں یہ ہوتے تو دوطرفہ تعلقات ہی ہیں لیکن اس میں کسی بھی وقت چھوٹے فریق کی طرف سے بلیک میلنگ شروع ہو جاتی ہے۔ پتہ ہوتا ہے کہ قانون اس کے ساتھ ہے۔  اس لیے ابھی تو عمر ہے کہ اپنی جونئیرز کے ساتھ بھی آرام سے انجوائے کر سکتا ہوں۔ 

اس نے مزید بتایا کہ تیرہ چودہ سال کی عمر میں ہی سب ایک دوسرے کے ساتھ شروع ہو جاتے ہیں۔ مسئلہ صرف کسی بڑے کا چھوٹے کے ساتھ جسمانی تعلق سے ہوتا ہے۔ ورنہ سب کو پتہ ہے ۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ ہے وہ آزادی جو یہاں کچھ لوگ چاہتے ہیں۔ جو لوگ بھی وہاں رہے ہیں، وہ سارے اس  طرح کے واقعات کی تصدیق کریں گے۔ 

بدقسمتی سے اتنا زیادہ تو نہیں لیکن ایسے واقعات اب پاکستان میں بھی عام ہو رہے ہیں۔ سکول، کالجز اور یونیورسٹیز میں جنس مخالف سے شادی سے پہلے کے تعلقات (کسی بھی سطح کے) عام ہوتے جا رہے ہیں۔ شور صرف اور صرف تب مچتا ہے جب کوئی ایک فریق یہ سمجھے کہ مجھے کچھ نہیں ہوگا اور اس کو زیادہ نقصان پہنچے گا۔ یا پھر جب کسی اور ذریعے یہ سب لیک ہو جائے۔ ورنہ زیادہ تر کیسز میں تو سب کچھ رضامندی سے چل رہا ہوتا ہے۔ اس سب میں جب دونوں برابر ہوں تو کسی کو معلوم نہیں ہوپاتا ، ہاں کوئی ایک رتبے یا عمر میں بڑا ہو وہاں فریق مخالف کی طرف سے فائدہ اٹھانے کے بعد شور مچایا جاتا ہے۔ 

۔۔۔۔۔

اس سب کا حل صرف ایک ہی ہے اور اس پر ہم بار بار بات کرتے ہیں، کہ مقصد تعلیم ہے تو تعلیم الگ الگ سکول، کالجز اور یونیورسٹیاں بنا کر حاصل کی جا سکتی ہے۔ ہاں اگر مقصد جنسی آزادی ہے تو پھر وہ کو ایجوکیشن سے ہی ممکن ہے اور یہی ہو رہا ہے۔ اور اس کے ساتھ ہی مسئلے کو جڑ سے ختم کرنا ہے تو پھر بلوغت کے فوراً بعد نکاح۔ جنسی ضروریات جائز طرح سے پوری ہوں، مخلوط محافل نہ ہوں تو ہی اس کا سد باب کیا جا سکتا ہے۔ 

ہمیں یہ آج سوچنا ہے اور اس پر کوئی فیصلہ کر لیں ورنہ کچھ سالوں کے بعد ہمارا معاشرہ بھی وہیں ہوگا جہاں آج اس معاملے میں  یورپ ہے۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ڈاکٹرعدنان نیازی

Comments

Popular posts from this blog

مسلمان فلسفين جو فتنو

بر صغير جون اسلامي تحريڪون

بیٹے آپ جنت نہیں دیکھ سکتے